ثقافتی ورثے کی قدر اور تحفظ کا فقدان
- بگائی آشرم کا زوال
انیسویں صدی کی عظیم عمارت بگائی آشرم اب ملبے کا ڈھیر بننے جا رہی ہے، جسے کاروباری مفادات اور سیاسی ملی بھگت نے نقصان پہنچایا۔ - قانونی اور سماجی مزاحمت
سول سوسائٹی نے عدالت سے حکمِ امتناعی حاصل کیا، لیکن بااثر افراد کی مزاحمت اور محکموں کی بے بسی سے ورثہ بچ نہ سکا۔ - تاریخی اہمیت اور سماجی خدمات
لالہ رام داس بگائی نے نہ صرف ٹرانسپورٹ کا جال بچھایا بلکہ ہسپتال، پانی کی اسکیمیں اور اسکول بھی بنائے، جو معاشرتی خدمت کی مثال ہیں۔ - متروکہ املاک کا استحصال
تقسیم کے بعد ہندو اور سکھ ورثے پر وڈیروں اور اہلکاروں نے ناجائز قبضے کیے، جو اب تک جاری ہے، جس سے تہذیبی شناخت مٹ رہی ہے۔ - سیاحت اور معیشت سے جڑی اہمیت
اگر ان عمارات کو بچا لیا جاتا تو خطہ سیاحتی مرکز بن سکتا تھا، لیکن اجتماعی شعور کی کمی نے اس موقع کو گنوا دیا۔
خلاصہ
بگائی آشرم صرف ایک عمارت نہیں بلکہ جنوبی ایشیاء کی گمشدہ تہذیب کی نمائندہ ہے۔ لالہ رام داس بگائی جیسے لوگ صرف معیشت نہیں سنوار رہے تھے بلکہ معاشرتی ڈھانچے کو بھی مضبوط کر رہے تھے۔ افسوس کہ ہم اس اثاثے کو بزنس ڈیلز، غفلت اور سرکاری لاپرواہی کی نذر کر بیٹھے۔ اگر ہم نے اب بھی ثقافتی ورثے کی حفاظت کو سنجیدہ نہ لیا تو ہم نہ صرف اپنے ماضی سے بلکہ اپنی شناخت سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ بگائی آشرم جیسے مقامات کو محفوظ بنا کر نہ صرف تاریخ زندہ رکھی جا سکتی ہے بلکہ معیشت کو بھی سہارا دیا جا سکتا ہے۔
مکمل آرٹیکل پڑھنے کے لیے مندرجہ زیل لنک پر کلک کریں
https://dunya.com.pk/index.php/author/aslam-awan/2021-04-08/34848/53927653