کھیل، انسانیت اور ضمیر کی روشنی: میدان جنگ سے میدانِ امن تک
- کھیل، سفارت اور خیر سگالی کا ذریعہ
بین الاقوامی کرکٹ ٹیموں کی پاکستان آمد نہ صرف کھیل بلکہ دوستی، خیر سگالی اور انسان دوستی کے پیغام کو فروغ دینے کا ذریعہ ہے، جیسا کہ برطانوی وکلاء اور صحافیوں کی ٹیم نے میچ کھیل کر ثابت کیا۔ - میدان کھیل یا میدان جنگ؟
میران شاہ جیسے مقامات پر کرکٹ گراؤنڈ صرف کھیل کے لیے نہیں، بوقت ضرورت میدانِ جنگ بھی بن جاتے ہیں، جو انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے والا تضاد ہے۔ - انسانیت کے فرشتے، شہرت سے بے نیاز
پاکستان میں اختر حمید خان، عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر رتھ فائو، اور جیوفری لینگلینڈز جیسے بے مثال لوگ خاموشی سے انسانیت کی خدمت کرتے رہے، جو معاشرے کی اصل بنیاد ہیں۔ - عقوبت خانوں میں زندہ ضمیر
امریکہ کی جیلوں سے لے کر گوانتاناموبے تک، بے گناہ قیدی اور اصولوں پر قائم افراد دنیا میں ہر جگہ ظلم کے خلاف کھڑے نظر آتے ہیں، اور یہی لوگ خدا کی قربت کے اصل حقدار ہیں۔ - اقبال کی روحانی روشنی اور انسان کا مقام
اقبال نے انسان کو فرشتوں سے برتر قرار دیا، بشرطیکہ وہ ضمیر کی روشنی، خدمت خلق اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کو اپنائے۔ یہی وہ اوصاف ہیں جو ایک انسان کو بلند مرتبہ عطا کرتے ہیں۔
خلاصہ:
کھیل اور انسانیت کے درمیان تعلق صرف جسمانی مشق یا تفریح نہیں بلکہ روح کی بالیدگی اور معاشرتی اقدار کے فروغ کا ذریعہ ہے۔ کرکٹ جیسے کھیل، اگرچہ میدان میں کھیلے جاتے ہیں، لیکن ان کے اثرات دلوں اور قوموں تک پھیلتے ہیں۔ ایسے میدان جہاں کبھی گولہ بارود گونجتا ہو، وہاں کھیل کا جشن امن کی علامت بن سکتا ہے۔ اس سب کے ساتھ، ہمیں ان گمنام فرشتہ صفت انسانوں کو یاد رکھنا ہوگا جو شہرت کے بغیر، صرف خلوص نیت سے انسانیت کا علم بلند کیے ہوئے ہیں۔ یہی لوگ دراصل پاکستان کا اصل چہرہ اور دنیا کے ہر معاشرے کی روح ہیں۔
مکمل آرٹیکل پڑھنے کے لیے مندرجہ زیل لنک پر کلک کریں
https://dunya.com.pk/index.php/author/naseem-ahmed-bajwa/2018-01-23/22084/44749706